برس ہابرس سے اس کے بارے میں طبی خواص کے حوالے سے جو کچھ کہا گیا وہ غلط نہیں ہے کیونکہ اس میں بخار کے علاوہ شدید اعصابی درد‘ سر کے درد‘ دماغ کے بوجھل پن‘ متورم غدودوں کے درد کے علاوہ بعض دیگر تکالیف کو دور کرنے کی بھرپور صلاحیت پائی جاتی ہے۔
(سویراحیدر‘اسلام آباد)
اس میں کوئی شک نہیں کہ شوخ رنگت مخصوص بھینی بھینی خوشبو اور ان گنت طبی خواص کا حامل گلاب ہی ایک ایسا پھول ہے جو خوشی سے لے کر غم کے لمحات تک انسانوں کا ساتھ نبھاتا ہے لیکن اگر گیندے کو ابھی اسی درجہ بندی میں رکھا جائے تو غلط نہ ہوگا‘ گہرے زرد اور سرخی مائل نارنجی رنگ کے پھولوں والا یہ پودا باغیچوں سے لے کر گھر کی کیاریوں تک کہیں بھی لگایا جاسکتا ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ معتدل آب و ہوا کے ساتھ ہی ہلکی سی خنکی میں یہ خوب پروان چڑھتا ہے۔ اگرچہ کہ اس کی عمر بہت کم ہوتی ہے لیکن اس کا سخت جان ہونا ثابت ہوچکا ہے نیز اس کے پھول پودے پر زیادہ دیر تک رہتے ہیں اور اپنی بہار دکھارہے ہوتے ہیں۔
یورپی ممالک میں یہ دو ہزار برس سے بھی زائد عرصے سے موجود ہے اور کہا جاتا ہے کہ رومی عہد کے بعد طویل عرصے تک اس پھول کی تازہ یا خشک پتیاں زعفرانی رنگ کا بہترین متبادل سمجھی جاتی تھیں اور مصالحوں کی تجارت کرنے والے افراد انہیں ڈبوں میں محفوظ کرکے رکھ لیتے تھے۔ یورپ میں اس کی پتیاں محض سجاوٹ کے اعتبار سے سلاد کے سبزپتوں پر چھڑکی جاتی تھیں جبکہ دسترخوان پر مختلف ڈشز کے اطراف میں گیندے کے پھول رکھ کر رنگینی پیدا کی جاتی تھی لیکن گیندے کو بطور مصالحہ اور دوا جو اہمیت اس زمانے میں حاصل تھی اس کے اثرات اب بھی اتنے ہی مضبوط ہیں۔ عموماً اس پودے کی اونچائی فٹ تک ہوتی ہے جبکہ اس کے پتوں اور ڈنٹھل پر ہلکا سارواں بھی پایا جاتا ہے۔ ایک ٹہنی پر ایک پھول تو عام ہے لیکن بعض اوقات دو پھول بھی دیکھنے میں آتے ہیں۔ گیندے کا پھول کٹوری کی مانند مگر درمیانی حصہ کچھ ابھرا ہوا سا ہوتا ہے اورچونکہ اس کا پھول چھوٹی چھوٹی بہت ساری پنکھڑیوں سے مل کر بنتا ہے تو فارسی میں اسے گل صدبرگ بھی کہتے ہیں یعنی سو پنکھڑیوں والا پھول۔مزاج کے اعتبار سے یہ خشک اور تاثیر کے لحاظ سے دافع ورم ہے۔
اس پودے میں فراری آئل کے علاوہ کیروٹین‘ لائیکوپین‘ کینلڈولین‘ رابی زینتھن‘ وائیلازینتھن‘ فاراڈیل‘ سیپونین‘ ریزن‘ سیلی سیلک ایسڈ اور بعض دوسرے اہم طبی اجزا شامل ہوتے ہیں جبکہ ایک اور عنصر لیکٹونز میں پھپھوندی اور بیکٹیریا دور کرنے کی خاصیت پائی جاتی ہے۔ یورپی ممالک میں گیندے کی ہلکی تلخ پتیاں گوشت اور مچھلی کے سوپ کے علاوہ چاول کی ڈشز اور سلاد میں عام طور پر استعمال کی جاتی ہیں۔ بہت سارے ممالک میں اب بھی اسے زخموں کو بھرنے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے جبکہ اس کے پھول کی پنکھڑیوں کو پانی میں ابال کر اس سے بال دھوئے جاتے ہیں اور جلد کی شگفتگی کیلئے کریم بھی تیار کی جاتی ہے۔ طب مشرقی کے لحاظ سے یہ محلل ہے یعنی لیس دار اخلاط کو تحلیل کرتا ہے‘ خون صاف کرتا ہے‘ پیشاب آور ہے اور خونی بواسیر کے علاوہ کان کے درد اور دانتوں کی تکلیف سے نجات کیلئے بھی مؤثر سمجھا جاتا ہے۔
اطباء کے مطابق اگر پیشاب رک جائے تو گیندے کی کونپلوں کا پانی پسی ہوئی مصری کے ساتھ چھان کر پینے سے فوری فائدہ ہوتا ہے جبکہ خونی بواسیر میں دو پھولوں کو چار سے پانچ کالی مرچوں کے ساتھ پیس کر اس کا عرق پینا فائدہ مند ہوتا ہے۔
چند برس پہلے کراچی یونیورسٹی میں شعبہ دواسازی و کیمسٹری کے کچھ افراد پر مشتمل ایک ٹیم نے گیندے کے پھول اور پودے پر گہرائی کے ساتھ تحقیق کی اس کے بعد یہ بات پوری طرح ثابت ہوگئی تھی کہ برس ہابرس سے اس کے بارے میں طبی خواص کے حوالے سے جو کچھ کہا گیا وہ غلط نہیں ہے کیونکہ اس میں بخار کے علاوہ شدید اعصابی درد‘ سر کے درد‘ دماغ کے بوجھل پن‘ متورم غدودوں کے درد کے علاوہ بعض دیگر تکالیف کو دور کرنے کی بھرپور صلاحیت پائی جاتی ہے۔ اہل مغرب کھلے اور مندمل نہ ہونے والے زخموں کیلئے کئی صدیوں سے گیندے کی پتیوں کا استعمال کررہے ہیں جبکہ اس سے ورم دور کرنے کاکام بھی لیتے ہیں۔ اس کے پتوں سے بھڑ اور شہد کی مکھیوں کے کاٹے کا علاج بھی کیا جاتا ہے جس کے لیے متاثرہ جگہ پر پتوں کو پیس کر لگانا پڑتا ہے۔ جلد کی شادابی کے لحاظ سے بھی گیندے کا پھول اپنی ایک اہمیت رکھتا ہے اگر پھول کے رس میں تھوڑی سی پھٹکڑی پیس کر ملائی جائے تو اسے بطور کریم استعمال کرکے جلد کو تروتازہ کیا جاسکتا ہے جبکہ جلد کی صفائی کیلئے گیندے کا تیل بھی مؤثر کلینزر ثابت ہوسکتا ہے جس کیلئے چار کھانے کے چمچ زیتون کا تیل لے کر اس میں دو کھانے کے چمچ گیندے کے پھول کی خشک پتیاں شامل کرلیں لیکن اس کا طریقہ کار یہ ہے کہ ایک برتن میں زیتون بادام کا تیل ڈال کر اسے گرم پانی سے بھرے کھلے منہ کے برتن میں رکھ لیں اور گیندے کے پھول کی پتیاں تیل میں ملا کر مسلسل چمچہ چلاتے رہیں اور کم از کم آدھے گھنٹے تک اس تیل کو حرارت ملتی رہے۔ رات کو سونے سے قبل تین کھانے کے چمچ عرق گلاب میں ایک کھانے کا چمچ گیندے کی خشک پنکھڑیاں بھگو کر رکھ دیں اور صبح اس کا پانی چھان کر اس تیل میں شامل کرلیں جو کہ گرم پانی کے برتن میں رکھ کر حاصل کیا گیا تھا۔ یکجان ہونے پر بطور کلینزر استعمال کریں۔گیندے کے پھول میں بہتے ہوئے خون کو روکنے کی صلاحیت بھی پائی جاتی ہے۔ اگر دانتوں سے خون آرہا ہے تو اس کے جوشاندےسے کلیاں کرنا مفید رہتا ہے اور چونکہ یہ دانت کے درد کو بھی دور کرتا ہے تو اس کا رس ٹوتھ پیسٹ میں بھی شامل کیا جاتا ہے جس سے مسوڑھوں اور منہ کی جھلیوں کا ورم بھی دور ہوجاتا ہے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں